حالات حاضرہریاست اور سیاست

شباب و شراب میں ڈوبے حکمرانوں کا تاریخی انجام

بدیسی کٹھ پتلی این جی اوز جیسے " معزز ادارے " انٹی ریاست سرگرمیوں کی آماجگاہیں اور ماڈلنگ کی " تہذیبی دہشت گردوں" کی نرسریاں ہیں

قدرت نے عورت اور مرد کے مابین جسمانی و روحانی اور معاشرتی رشتوں کو با وقار حدود کی پاسداری سکھا کر انمول بندھن عطا فرمائے ہیں۔ جہاں اسے ماں بہن اور بیٹی بنا کر سب محرم رشتوں کیلئے مقدس اور حرام قرار دیا ہے ۔ وہاں ازدواجی بندھنوں میں ، جذباتی تشنگی کا مداوہ،  حصول سکون کا ذریعہ اور ایک دوسرے کا لباس بنا کر حلال بھی کر دیا ہے ۔ لیکن جائز و ناجائز ، حصولِ حسنِ زن کیلئے ہابیل اور قابیل سے شروع ہونے والی یہ  جنگ ازل سے تا بہ ابد جاری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس زندہ و پائیندہ واردات حسن کا شکار صرف افراد ہی نہیں رہے بلکہ تاریخ کی کئی عظیم الشان سلطنتیں بھی کسی نہ کسی داستانِ حسرت کی نذر ہو کر حسرتوں کا نشان بن گئیں۔

قبل مسیح میں مصر کی فرعون ملکہ قلوپطرہ کے ہوش ربا حسن اور قیامت خیز جوانی نے سلطنت روم کے نامور جرنیلوں کو خاک و خون میں رنگ کر دو عظیم الشان سلطنتوں کو صفحہء ہستی سے مٹا دیا۔ ایک طرف حسن کے جادوئی ہتھیاروں سے لیس یہ  فرعونہ سلطنتِ مصر کی روم تک وسعت اور جنسی ہوس کی سولی پرچڑھ گئی ۔ تو دوسری طرف جولیئس سیزر اور مارک انتونی جیسے نامور جرنیلی حکمران ، اسے  جنسی تسکین اور دوام اقتدار و سلطنت کیلئے استعمال کرتے ہوئے خود اس کی ہوس پرستی اور سیاسی شطرنج کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اور  پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ خود کو  کوبرا سانپ سے ڈسوا کر تاریخ میں بے وفائی کی علامت بن کر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئی

– حسن زن پر تن من دھن فدا کرنے والے شاہوں میں دوسرا اہم نام جلتے ہوئے روم میں بانسری بجانے والے شاہ نیرو کا ہے۔ نیرو بادہاشت کا نشہ چڑھتے ہی شادی شدہ پومیا سبینا کا عاشق ہوا تو اس نے پہلے اپنی بیوی اوکتاویا کو خودکشی پر مجبور کر کے راستے سے ہٹایا ۔ اور پھر پوپیا سبینا کے خاوند کو قتل کروا کر اسے اپنی ملکہ بنا لیا۔ وجودِ زن کیلئے پاگل نیرو کی ماں نے اس عیاشانہ طبیعت کو سلطنت کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی تو بد بخت بیٹے نے ماں کو بھی قتل کروا دیا۔

قتل کے وقت دم توڑتی ہوئی بدنصیب ماں کے دل ہلا دینے والے آخری الفاظ یہ تھے کہ ” نیرو میری اس کوکھ پر ضرب لگاؤ جہاں سے تم جیسے بدبخت بیٹے نے جنم لیا تھا “۔ اور پھر ایک دن حسنِ زن اور مکافات عمل کے شکار شکست خوردہ نیرو نے، خود ہی اپنی نسیں کاٹ کر خود کشی کر لی۔ تاریخ اس شاہ نیرو کے جن عیاشانہ و غیر فطری کارناموں کا احوالِ بد  بیان کرتی ہے۔ اب وہ تمام فتن ہنگامہء دوراں بن کر مغربی تہذیب سے ہمارے مشرقی ایوانوں اور مغرب زدہ اشرافیہ تک بھی پہنچ رہے ہیں۔

احباب یہ حقیقت مغرب کے مونہہ پرطمانچہ  ہے کہ عورت کو سامانِ عیاشی بنانے والوں نے اس کے جسم کو جنگ و جدل کی مہم جوئیوں میں بھی ذخیرہء خوراک و بارود کی طرح انتہائی لازم سمجھا۔ دوسری صلیبی جنگ میں جرمن شاہ کونراڈ اور شاہ فرانس لوئی کی قیادت میں نو لاکھ  کے عیسائی لشکر کو عیاشی فراہم کیلئے جو خوبرو حسینائیں بھی شامل کی گئی ۔  وہ تمام راستے لشکری سپاہیوں کے درمیان وصالِ حسن کیلئے لڑی جانے والی خونریز ہنگامہ آرائی کی وجہ بنی رہیں۔ 


مغربی تہذیب کی سیاہ کاریوں  کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

قومِ لوط کے شہرِ سدوم سے پنٹاگون اور پاکستان تک


اسی فیصد صلیبی فوج برباد ہوچکی تھی، وہاں جنسی تسکین بہم پہنچانے والی جنسی رضاکاراؤں میں سے کوئی ایک حسینہ بھی زندہ باقی نہ بچی تھی۔  جنگجو خواتین اپنے ہی عیسائی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی درندگی کا شکار بن کر بھوکے گدھوں کیلئے سامان ضیافت بن رہی تھیں۔ اور پھر یہ   سب سہولت  ختم ہونے پر ان وحشت زدہ صلیبی لشکریوں کا جو حشر ہوا، اسے یاد کر کے آج بھی مغربی دانشوروں کے پیندوں سے تپتا دھواں برامد ہوتا ہے۔

کسریٰ ایران کے حکمران ، نوشیرواں عادل کے عیاش پوتے خسرو پرویز کے بارے علامہ ابنِ جریر طبری اور علامہ ابن اثیر کے مطابق ” خسرو کے حرم میں تین ہزار بیویاں اور رقص و سرور کی محافل کیلئے ہزار ہا کنیزیں تھیں“۔  جبکہ قربان جائیں کہ اس شاہِ حشمت و جلال کو حق کا پیغام دیکر للکارنے والی بوریا نشین ذات ، اس نبی ء آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جس کا دنیاوی اثاثہ  تن کا عام لباس، مٹی کا گھڑا اور کچا پیالہ تھا۔ مگر اس مولائے کل ختم الرسل کے غلاموں میں ایک اکیلے عاشق بلال حبشی کا جذبہ ء عشق ہی کسری کے لاکھوں غلاموں کی وفاؤں پر بھاری تھا۔

اسی نبیء محترم کے غلاموں کے ہاتھوں اس گستاخِ رسول ، عیاش و اوباش بادشاہ کی سلطنت ہی نہیں اگلی نسل تک کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ اور میرے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق کسریء ایران جیسا احوالِ بد بختی  قیصر روم کا بھی ہوا ، کسریٰ نہ رہا  تو پھر کوئی بھی کسری باقی نہ  رہا اور قیصر اپنے انجام کو پہنچا  تو پھر کوئی قیصر نہ آیا۔۔۔

عمر بن عبدالعزیز کی اصلاحات کا خاتمہ کرنے والا عیاش خلیفہ  یزید بن عبدالملک، ریاست میں بغاوت اور عوامی مصائب سے بے نیاز اپنی محبوباؤں حبابہ اور سلامہ کی  قربتوں میں مدہوش  انہیں شاہی باغ میں ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر انگور کھلا رہا تھا۔ اچانک انگور کا ایک دانہ سیدھا حبابہ کی سانس کی نالی میں جا پھنسا  اور وہ چند لمحوں میں اس کی بانہوں میں دم توڑ گئی۔

وہ دو دن تک اس کی لاش سے لپٹ کر روتا رہا۔  وہ محبوبہ  کی جدائی میں پاگل ہوا اور چوتھے ہی روز ” عشق زندہ باد ” کا خاموش نعرہ لگا کر ہمیشہ کیلئے مردہ باد ہو گیا۔ ایک اور اموی خلیفہ ولید ثانی ، زنا کاری، ہم جنس پرستی اور فسق و فجر کی  ساری حدیں عبور کر گیا تو لوگوں نے محل میں گھس کر قتل ڈالا۔ اور پھر جلد ہی ایسے عیاش و اوباش حکمرانوں کے باعث عظیم الشان اموی سلطنت کی آخری ہچکیوں کا ہولناک آغاز ہو چکا تھا  ۔۔ ۔

 حسن بن صباح اپنے فدائیوں کو حشیش کے نشے میں مدہوش کر کے وادی ء الموت میں بنائی خود ساختہ جنت کی سیر کراتا تھا ۔ انہیں  سیکس سروس فورس کی قیامت خیز جوانیوں کے ذریعےعریانیء حسن کی چاشنی کا عادی اور شراب کا رسیا بنا کر واپس اس کے قدموں میں چھوڑا جاتا- انہیں یہ باور کرایا جاتا  کہ اگر وہ ہمیشہ کیلئے ان عریاں اجسام کی لذت و رعنائی، مدہوشیء مشروب اور ” صباحی جنت ” چاہتے ہیں تو پھر انہیں صرف حسن بن صباح کیلیے ہی جینا ، مرنا اور اپنے مخالفین کو مارنا بھی ہو گا۔

لہذا اس ” جسمانی و روحانی تربیت ” کے بعد حسن بن صباح کا عاشق ، مذہب و مسلک اور اخلاقیات کی ہر قید سے آزاد ایک ایسی بھٹکی ہوئی آتما بن جاتا جو ہمارے سیاسی انقلابیوں کی طرح اپنے لیڈر کے خلاف بولنے والی ہر آواز کو کلمہ ء کفر اور ریاست سے غداری سمجھتا تھا۔ مگر قدرت کے کھیل دیکھئے کہ اس سفاک فتنہء اسلام کی واہیات باقیات کا مکمل خاتمہ ایک اور اسلام دشمن کردار ہلاکو خان کی خون آشام فوجوں کے ہاتھوں ہوا۔

آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ اسوقت تک اپنی محلاتی حسن دلربائی کے عاشقانہ چنگل سے آزاد نہ ہوا جب تک بغداد کو تیر و تاراج کرنے والے ہلاکو خان نے اسے گھوڑوں کے سموں تک روند کر زندگی سے آزاد نہیں کر دیا۔ محمد شاہ رنگیلا اپنی محلاتی حسیناؤں کی آغوش اور خواجہ سراؤں کی فوج کے جلو میں ” ہنوز دلی دور است ” کا نعرہ لگاتا ہوا نادر شاہ درانی کے غضب کا شکار بنا تو دہلی کے کوچہ و بازار خون سے تر تھے۔ اور پھر نہ وہ رنگیلا رہا نہ وہ محلات اور نہ حسن پریوں کے وہ رنگیں ادا طائفے رونق دربار و قصران شاہی رہے۔

لہذا تعجب نہیں کہ نہ بازارحسن کی تتلیاں بھٹو صاحب کی دسترس سے دور رہیں، نہ کوئی سابقہ شیر پنجاب مصطفے کھر کو گیارہ بیگمات کرنے سے روک سکا۔ نہ زرداری اور بلاول کے معاشقے اور ایان علی جیسی  تتلیوں پر دست شفقت کم ہوئے۔ اس بازار سیاست میں  نہ عمران خان کے انگنت معاشقے تھمے اور نہ ہی شہباز شریف پر ہنی سے لیکر کھر کی ساٹھ سالہ مطلقہ تہمینہ درانی کھر تک کے حصول پر کوئی عائلی پابندی ممکن ہوئی ۔ یہ سلسلہء حسن و عشق تو دراصل فقیر کی جھگی سے شاہی محلات تک صدیوں سے رواں ہے اور ہمیشہ دواں رہے گا۔

 جنرل یحیی خان اور  غداران ملک  کی رکھیل  بیگم اکلیم اختر عرف جنرل رانی جیسی رنگین  داستانیں آج بھی اسلام آباد پارلیمنٹ ہوسٹلز اور سرکاری اشرافیہ کی  خلوت گاہوں میں رواں ہیں، مگر حیرت  ہے کہ آج میڈیا کے  فعال اور ڈائنامک ہونے کے باوجود ، حقائق عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔  قصہء پارینہ ہے کہ گلوکارہ طاہرہ سید نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے جرات مند کردار نواز شریف کی قلوپطرہ بننے کی والہانہ کوششیں کیں،  لیکن شریف خاندان کے بزرگوں کی بدولت یہ عاشقانہ مہم جوئی ناکام ہوئی اور وہ  اپنے شوہر نعیم بخاری کی مطلقہ ٹھہریں۔

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرد فطری طور پر حسن و شباب  کا گرویدہ  ہے ۔ کچھ عجب نہیں کہ ایک دینی گھرانے کے چشم و چراغ  نون لیگی، ضعیم قادری بھی شراب و شباب کی محافل میں  محو رقص ہو کر  اس  حقیقت  کا اعلان کرتے ہیں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ یہ بھی  پاکستانی سیاست ہی کا تماشہء عجب ہے کہ یہاں ایک ہی لغاری خاندان کی ایک بہن سمیرا ملک نون لیگ تو دوسری بہن عائلہ ملک خان صاحب کی قلوپطرہ بننے کی دوڑ میں شریک رہی ہیں ۔

یاد رہے کہ قوم بدترین سیلاب کی میں ڈوب رہی تھی لیکن انقلاب خان انہیں بچانا حکومتی فریضہ قرار دیکر  رنگیلے دھرنوں میں مصروف   تھے،  جہاں مابعد شائع ہونے والی پریس تصویروں کے مطابق انکی اس وقت تک کی ” خفیہ محبوبہ ” ریحام خان کی موجودگی ہی ان کیلئے کل سرمایہ تھی۔ اور پھر جب سانحہ پشاور سے افسردہ  قوم حالتِ صدمہ میں تھی، خان صاحب اپنی محبوبہ کے جشن قربت کا رنگین و سادہ اہتمام کر رہے تھے۔

 یہ پاکستان کی نہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ کی بد قسمتی ہے کہ یہود و نصارٰی اور ہندوتوا کے کٹھ پتلی ، گستاخین قرآن و رسالت اور قادیانیت کے آلہ کار، حکومتی صفوں سمیت ہماری سب سیاسی جماعتوں کے تھنک ٹینکس پر قابض ہیں۔ یہی گروہ میرا جی کو پرائیڈ آف پرفارمس کے صدارتی ایوارڈ دلاتے اور اشرافیہ  کی روشن بستیوں میں قحبہ خانے چلاتے ہیں۔ سفارت کاروں سے لیکر سیاست دانوں تک کو جنسی تسکین کا سامان فراہم کرنے والے شیطانی حقوق کے علمبردار یہی ” معزز ادارے ” ، دراصل  ماڈلنگ   میں  ”  تہذیبی دہشت گرد ” کرداروں کی نرسریاں ہیں۔

ایان علی جیسی  ہستیوں کو منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کرنے والے کرپشن کنگ  تو زمانے کے سامنے عریاں ہو چکے لیکن اسے قید کوٹھری میں انٹرنیشنل کلاس اور ہالی وڈ برانڈ کے میک اپ اور دیگر فائیو سٹار سہولتوں کی فراہمی کے پیچھے کون سے عزت دار کردار اور سیاسی مفاہمت  کے راز و نیاز چھپے ہیں ، اس کا جواب ڈھونڈنا نہایت اہم ہے۔ فاروق درویش کا دعوی ہے کہ ،  اس سوال کا جواب مل گیا تو زداری  کا لوٹا ہوا مغرب نشین قومی خزانہ واپس لانا بھی ممکن و آسان ہو جائے گا  ۔۔

( فاروق درویش — واٹس ایپ کنٹیکٹ — 00923224061000  )


پاکستان سیاست میں مغربی تہذیب کے حامیوں کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

ہم جنس پرستی کی علمبردار بیکن ہاؤس کی سیاسی میڈم

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button