حالات حاضرہریاست اور سیاست

ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کرپشن کا راج

ہم اپنا مستقبل ان بہروپیوں کے ہاتھ میں دے بیٹھے ہیں جنہوں  نے پرانے پاکستان کے کرپشن کنگ لوٹوں سے نئے پاکستان کی حکومت بنا کر غریبوں کا کفن سی کر سفید پوشوں کو زندہ درگور کر دیا ہے 

سلطنت عثمانیہ کے تاجدار جب تک اسلامی اقدار کے پاسبان رہے مغربی طاقتوں  پر  بھی ہاوی   رہے اور  عوامی فلاح میں بھی  بے مثال رہے۔ مگر جب ہمارے  ڈبل فیس  اور نا اہل حکمرانوں کی طرح مغرب پسندی میں دین  اور نظریات ِ حق سے دور ہوئے۔  تو    نہ  وہ ان گوروں  کا سامنا کرنے کے اہل   اور نہ ہی اپنے ریاستی و ملی مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل رہے ۔ پھر وہی ہوا جو ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو  مراعات دینے والے رنگیلے  باشاہوں کے ساتھ ہوا تھا۔ جن یورپی باشندوں کو عثمانیوں نے خصوصی مراعات دیکر  قانون کی پابندیوں سے آزاد  تجارت کی کھلی اجازت دی، ان ہی  گوروں  نے  سازشوں سے خلافت کا  چراغ ہمیشہ کیلئے گل  کر دیا   ۔ 

 یہاں    اس نئے پاکستان میں بھی    مغربی  آقاؤں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں  کی کمیشنوں سے اپنے  بینک اکاؤنٹ بھر کر  ان کمپنیوں  کو   اشیائے ضرورت اور میڈیسن کی قیمتیں بڑھانے کی کھلی چھٹی دینے سے   آج غریبوں  کے چولہے    بجھ رہے ہیں۔  مغربی آقاؤں  کی  سفارشات پر اپنی پارٹی  کے  قابل  لوگوں کو نظر انداز  کر کے مغرب کے آلہ کار     سدا بہار   لوٹوں   کو عوام کے سروں  پر مسلط کرنے والی   حکومت  میں  عوامی فلاح اور  ریاستی امور  کا نظام      نا اہل اور کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں  تباہ  ہو رہا ہے۔  خان صاحب  کی طرف سے اعلانیہ   طور پر  ڈاکو  اور نااہل  قرار دئے  گئے کرپٹ  لوگ   اہم وزارتوں پر بیٹھے قومی خزانہ اور عوامی فلاح کے فنڈز لوٹ رہے ہیں۔  امریکی اور مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس قدر اثر رسوخ کی مالک ہیں کہ  معیشت  و تجارت کے شعبہ میں   اعلی افسران  سے  وزیر خزانہ تک کی تقرریاں بھی  ان کی مرضی کے مطابق ہوتی  ہیں۔ اور انہی کی خصوصی  دوست   ماڈل گرلز کو  قومی اور صدارتی ایوارڈ  بھی ملتے ہیں۔

یاد رہے کہ جب  عدل و انصاف  کے نظام   کے قیام اور کرپشن سے پاک  نیا پاکستان بنانے  کے  دعوے  ہو رہے تھے۔  تو  تماشائے عجب  تھا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کیلئے حصول انصاف  کے مطالبے کے نام پر میوزک شوز اور  رقص و مجرا کی محافل یوں منعقد کی گئیں ، گویا پولیس گردی کا شکار ہونے والے شہیدوں  کا رنگ برنگی جشن مرگ منایا جا رہا ہو ۔     اور پھر قادری صاحب  ڈالروں سے بریف کیس بھر کر کینیڈا چلے گئے اور ہم  آنکھوں دیکھ کر مکھی کھانے  والے  پاکستانی ،         فریبی نعروں   کا اعتبار کر کے  اپنا مستقبل ان بہروپیوں کے ہاتھ میں دے بیٹھے۔ کہ جنہوں  نے    پرانے  پاکستان   کے کرپشن کنگ لوٹوں  سے   نئے پاکستان  کی حکومت بنا کر غریبوں کا کفن سی کر  سفید پوشوں کو زندہ درگور  کر دیا ہے  ۔

 افسوس کہ رقص و شباب کے دلدادہ   لوگ ،  معاشی تباہی اور غریب شکنی کے اس کالے دور کے کھلے حقائق  دیکھ کر بھی  روشن خیالی اور شخصیت پرستی  میں اس حد تک  اندھی تقلید کا شکار ہیں۔ کہ حقائق سے پردہ اٹھانے پر  صرف   فحش تبروں اور بازاری گالیوں کی گردانیں  سنائی جاتی ہیں ۔ ریاست مدینہ کے نعرے کے ساتھ مذاق کا یہ عالم ہے کہ  اسلام سے  بیر رکھنے والی حکومت  اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کشمیر کاز سے غداری کرنے والے  اس غدار   قادیانی وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ کو   قیام پاکستان کا ہیرو بنا کر پیش کر رہی ہے ، جس نے   حضرت   قائد اعظم کا جنازہ یہ کہہ کر  پڑھنے سے انکار کر دیا تھا کہ  اس کے مذہب کے مطابق   کسی غیر قادیانی کا جنازہ  پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ 

قوم کی شومئی قسمت کہ ان کے نام نہاد انقلاب کی تشہیر کرنے کیلئے  لبرل اور فاشسٹ دانشور اور  صحافی بھی موجود ہیں۔ اور نئے پاکستان کے اس  غریب شکن ڈرامے میں طوائف، تماش بین اور دلال کے کردار نبھانے کیلئے سدا بہار لوٹے  شیخ رشید ،  شاہ محمود  قریشی   اور فردوس عاشق   اعوان جیسے مغربی خدمت گاروں کی پوری ٹیم  بھی موجود  ہے۔ لیکن   ان  پیشہ ور لوٹوں کی ٹیم میں کسی کے پاس بھی  اس سوال کا  کوئی جواب نہیں ہے  کہ  تین سالوں میں  گذشتہ پندرہ سالوں جتنے  بیرونی قرضے لیکر   کہاں خرچ ہوئے ہیں ۔ کوئی لفافہ خور صحافی اس بارے سوال نہیں اٹھاتا کہ  اپنے جلسوں میں بجلی کے بل پھاڑنے والے خان صاحب   کے اپنے دور   میں  گیس ، بجلی   ،      اشیائے ضرورت اور ادویات  کی قیمتیں دوگنی   کیوں ہو گئی ہیں۔ خان صاحب کے قصیدے پڑھنے والے  میڈیا اینکر یہ نہیں بتاتے کہ خان صاحب  کے  دعووں   اور   وعدوں کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی   پہلے سے دو گنا کیوں ہو رہا ہے۔

تاریخ کا جائزہ لیں تو ماضی میں  اسی   نئے پاکستان    جیسا  ہی  ایک  اور   ڈرامہ جدید مصر کے نام نہاد بانی محمد علی پاشا کا م نے بھی  رچایا   تھا ۔ جس نے مصر کو ترکوں سے آزاد کروا کر جدید مصر بنانے کا نعرہ لگایا تھا ۔  لیکن اس کے طریق سیاست  کی سفاکی اور اسلام پسند سیاسی مخالفوں کا قتل عام  ہٹلر کی خونخواری سے  مختلف نہ تھا۔  بالآخر قدامت پسند مصر کو ایک جدید سیکولر ریاست بنانے والوں کی ضروت سے زیادہ روشن خیالی کا سیاہ انجام یہ نکلا کہ آزاد  مصر مغربی آقاؤں کی غلامی کے اندھیروں میں غرق ہو کر ایک برطانوی نوآبادی بن کر رہ گیا۔ خدا ہمیں اس نئے  پاکستان کے   بدلے کسی    ایسے ہولناک  انجام سے محفوظ رکھے۔

پاکستان میں امریکہ، برطانیہ اور بھارت کا پسندیدہ اسلام نافذ کرنے کیلیے کوشاں روشن خیال کبھی  معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ کی کتاب ” اسلام کی مختصر تاریخ” ضرور پڑھیں۔ وہ اسلام کو جدید مذہب قرار دیتے ہو ئے لکھتی ہیں۔ ” درحقیقت اسلام تو تمام  مذاہب میں سب سے زیادہ عقلی اور ترقی یافتہ مذہب ہے۔ اس کی کڑی وحدت پرستی نے انسانیت کو اساطیر کی خرافات سے نجات دلائی اور قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ فطرت کا قریبی مشاہدہ اور غور و فکر کریں نیز اپنے اعمال کا مستقبل تجزیہ کرتے رہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ فہم و فراست اور زندہ دماغ  والی جس    روح  نے جدیدیت کو جنم دیا   تھا ، وہ بھی دراصل  اسلام سے ہی نکلی تھی۔” پاکستان میں روشن خیال اور انقلاب کا منجن بیچنے والے سیاست دانوں کے دام فریب میں آنے والے  لوگوں کو مسلم سلطنتوں کے زوال اور مسلمانوں کی زبوں حالی کے بارے اسلامی طرز فکر اور طریق ریاست کے حامی ان مغربی دانشوروں کی تحریریں بھی ضرور پڑھنی چاہئیں۔  کہ نو آبادیاتی نظام کی حکمرانی اور مغربی  تہذیب  کی تقلید کی وجہ سے مسلمان اپنی بنیادی اسلامی اقدار و دینی تعلیمات سے ہٹ گئے تھے۔ انہوں نے دوسروں کی نقل کی تو وہ مذہبی ، ثقافتی او سیاسی اعتبار سے دوغلے ہوتے گئے اور جب کوا ہنس کی چال چل کر اپنی بھول جاتا  ہے  تو پھر نتائج بھی  اس نیے پاکستان میں عوامی فلاح کے  حالیہ جنازے    جیسے   ہولناک اور تباہ کن ہی نکلتے ہیں۔

ہمیں حکیم سعید    کی حق گوئی ،    ڈاکٹر اسرار احمد    کی پیشین گوئیوں   اور  جنرل اسلم بیگ    یا  دوسرے ذرائع کی طرف سے کئے گئے ایسے انکشافات سے کوئی غرض نہیں کہ خان صاحب    اینڈ کمپنی  نے قتل قوم اور قتل معیشت کی یہ  قاتل انقلابی گیم  کسی لندن پلان کے تحت شروع کی یا اس کا سکرپٹ  بھارت کے   اتحادی      ایران میں  لکھا گیا۔ لیکن  ہمارا حق الیقین ہے کہ اس ملک و قوم کا ہر  ایک  دشمن ہمیشہ ناکام و نامراد ہی رہے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ نواز شریف یا  خان صاحب رہیں یا  نہ رہیں، مملکت خداداد پاکستان سدا سلامت و آباد رہے گی۔

 عمران خان صاحب نوے دنوں میں مہنگائی ختم اور نظام درست  کرنے کے بلند بانگ  دعوےکرتے  تھے  ، لیکن  نو سو  دن گزر جانے  کے بعد  قیمتیں ڈبل اور ٹرپل  اور حکومت ہر لحاظ سے ٹوٹل  فلاپ ہو چکی ہے۔ جو حکمران عوامی فلاح اور مہنگائی پر قابو پانے  کیلئے      پرائس کنٹرول     کمیٹی سسٹم کو کامیابی  سے  نہیں چلا  سکتے  وہ   عنانِ ریاست اور حکومت کیا چلائیں گے؟  اور جو حکومت ملٹی نیشنل کمپنیوں   کی قیمتوں  میں  من مانیوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی  وہ  ریاست میں معاشی  نا انصافیاں   اور مالی  کرپشن کیسے روک پائے گی ؟ 

 حکومتی نظام کی اصلاح  کی بجائے  کبھی وزیروں کی وزارتیں اور اور کبھی  وزارتوں کے وزیر بدلنے والے  خان صاحب   اب بھی یہ حقیقت جان لیں  کہ انقلاب    خود ہی  انٹی کرپشن کا   نعرہ  لگا کر ،  پھر  آپ  ہی   کرپشن کنگز اور پیشہ ور سیاسی  لوٹوں کو حکومت میں لانے  سے نہیں آتے۔  بلکہ ان سیاسی و ملی افکار کے فروغ  ،   اس مخلصانہ  جدوجہد اور اُن  اٹل فیصلوں  سے برپا  ہوتے ہیں جن پر خان صاحب  آج  سے دس بارہ   سال پہلے  تک قائم  تھے ۔

آج  اس دکھیاری  قوم کو وہی گم  شدہ عمران خان مطلوب ہے جو معاشی لوٹ مار  ،  نا انصافی، لوٹا کریسی  اور  لاقانونیت کیخلاف سب سے مضبوط اور کھری آواز تھا ۔ مگراس کیلئے  خان صاحب کا اپنی صفوں میں موجود   تمام ابن الوقت  لوٹوں کے ٹولے  اور  مفادیاتی گروہوں کے چنگل سے مکمل  آزاد ہونا   پہلی اور آخری شرط ٹھہرا ہے۔

پانچ سالہ  حکومتی مدت پوری کرنے کی دعاؤں کے ساتھ خان  صاحب کی  نذر میرے دو اشعار ۔

ہوائیں کب رکیں گی جب ہوائیں  چل پڑیں گی ۔۔  دبی خاموشیاں بن کر صدائیں چیخ اٹھیں گی

بجھے گی شمعِ مسند صبح ِ نو درویش ہو گی ۔ ۔  قبائیں در بہ در دربار کا نوحہ پڑھیں گی
( فاروق درویش)

03224061000واٹس ایپ کنٹیکٹ۔۔۔۔۔


کچھ تصویریں جو سب کچھ بولتی ہیں

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button