حالات حاضرہ

افغان طالبان اور سبز انقلاب کی سرخ آندھی

پاکستان کو افغان وار دور کی اُس چالیس سال پرانی حکمت عملی کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے شہید ضیاء الحق اور حمید گل جیسے جرنیلوں کی ضرورت ہے

چالیس برس قبل پاکستانی عسکری قومی قیادت نے روسی استعمار کی شکست کے بعد افغان مجاہدین کو کشمیری حریت پسندوں کی مدد کیلئے سرگرم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن بھارت کے سرپرست اسرائیل کے ایما پرامریکہ اور مغربی طاقتوں کی سازش میں جنرل ضیاء الحق سمیت افواج پاکستان کی ساری مرکزی قیادت کو شہید کر دیا گیا تھا۔

بھارت کیلئے یہ حقائق کسی ڈراؤنے خواب کی بھیانک تعبیر سے کم نہیں کہ اُن افغان مجاہدین کی اگلی نسل کی افغان طالبان کی شکل میں واپسی سے افغان سرزمین اب بھارت کے انٹی پاکستان منصوبوں کا شمشان گھاٹ بن گئی ہے۔ چالیس سال بعد تاریخ کی دہرائی کے امکانات سے بھارتی ڈرٹی گیم کی بساط الٹتی دکھائی دیتی ہے۔ افغان طالبان کی طوفانی پیش قدمیوں کے بعد امریکی اور بھارتی کٹھ پتلوں کی حکومت کے افغانستان میں بھارت کا گورکھ دھندا ختم ہو چکا ہے۔ بلوچستان سے خیبر تک دہشت گردوں کو سہولت کاری اور فنڈنگ فراہم کرنے والے بھارت کو اپنے مستقبل کے مذموم ارادے خاک میں ملتے نظر آتے ہیں۔

بھارتی دفاعی ماہرین بھی مانتے ہیں کہ طالبان کی واپسی سے کشمیریوں کی عسکری جدوجہد بھی مضبوط ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو یقین ہے کہ فطری طور پر عالم اسلام کے ہمدرد افغان طالبان کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلمان خواتین کی عصمت دری اور نہتے عوام کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے۔  پاکستانی عسکری اداروں کی چالیس سال پرانی حکمت عملی تکمیل کی طرف بڑھی تو امریکہ بھی بھارت کو روس کی طرح ٹکرے ٹکرے ہونے سے بچا نہ پائے گا

امریکی انخلاء کے بعد افغان صدر کی طرف سے ہائے ہائے پاکستان اور ہائے ہائے پنجابی جیسے تعصب آمیز بیانات کی بھارتی زبان بندی انتہائی قابل مذمت تھی ۔ دنیا کے سامنے تماشائے عام ہوا کہ بھارتی مفادات کو بیساکھیاں اور دہشت گردی کو پناہ دینے والی قوم فروش افغان قوتیں ملک چھوڑ کر فرار ہو گئیں ۔ قونصل خانوں کے نام پر قائم کردہ بھارتی دہشت گردی کے مراکز ویران ہو گئے ۔ بھارتی مفادات کے کریا کرم پر ماتم کناں بھارتی میڈیا پر طالبان مخالف پراپیگنڈا مہم جاری ہے۔

صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی نئی نسلوں کو افغانستان میں مروانا نہیں چاہتے۔ پھٹے ہوئے لباس اور ننگے پاؤں لڑنے والوں کے ہاتھوں شکست خوردہ سپر پاور  نے افغانستان سے کوچ کا فیصلہ کیا تو پھر بھارت کیلئے بھی افغانستان میں کوئی محفوظ مقام باقی نہ رہا۔ پاکستان کے ساتھ سرحدی راہ داریوں اور پنج شیر کے علاوہ  95٪ اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔ ان حالات میں بھارت کیلئے اپنے مفادات کی رکھوالی اور پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی ڈرٹی گیم کیلئے حالات ناسازگار بن رہے ہیں۔ بھارت مکار لومڑی کی طرح طالبان سے مذاکرات کی کوششوں میں ہے۔ لیکن طالبان آنکھوں دیکھ کر مکھی کھانے والے یا ایک سوراخ سے دو بار ڈسے جانے والے مومن نہیں ۔۔

اگر طالبان کی طوفانی یلغار اور پیش قدمی کی رفتار  دیکھ کر بھارت طالبان کے کابل پہنچنے سے ایک ہفتہ قبل کابل کے سفارت خانے سے بھاگ چکا تھا۔ عالمی مبصرین کے مطابق اس دوران بھی بھارت نے روس اور ایران کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کی کوششیں کیں تھیں۔ لیکن طالبان اب بھارت کی کھلی منافقت اور عیارانہ امن دشمنی سے پوری طرح واقف تھے اور ہیں۔ عالمی میڈیا یہ حقائق دکھا رہا تھا کہ بھارت نے طالبان کیخلاف افغان فورسزاور انٹی پاکستان دہشت گرد تنظیموں کو بھاری اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی شروع کر رکھی تھی ۔ افغان طالبان نے صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ میں ایک ہسپتال پر بھارتی طیارے کے ذریعے وحشیانہ بم باری کو سنگین جنگی جرم قرار دیا تھا ۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے پہلے ہی قندھار سے سو کے قریب بھارتی آلہ کار دہشت گردوں کو نیو دہلی پہنچا دیا گیا تھا ۔ پاکستان کیخلاف استعمال ہونے والی ٹی ٹی پی اور دوسری  دہشت گرد تنظیموں کے اہم کمانڈروں کو بھی بھارت میں پناہ دی گئی تھی ۔ بھارت کی سرتوڑ کوشش تھی کہ افغانستان میں بدامنی کی فضا قائم رہے تاکہ وہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں اپنی شرانگیزیاں جاری رکھ سکے ۔ لیکن طالبان کی پیش قدمیوں سے پاک افغان سرحد سے قریب بھارت کا ٹیررازم اور انٹیلی جنس کا نیٹ ورک تباہ و برباد ہو گیا ہے۔

گو کہ اسلامی نظریاتی شناخت رکھنے والے افغان طالبان اعلانیہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین سے اب بھارت کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مذموم منصوبوں کی تکمیل کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ اب افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ دس بیس سال پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ بیس سال پہلے افغان طالبان رہنما مشکل حالات میں اپنے خاندانوں سمیت پاکستان میں پناہ لیتے تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں انہوں نے افغانستان کے کئی اضلاع پر کنٹرول کے بعد محفوظ پناہ گاہیں ، عوامی رابطوں کا نیٹ ورک اور گہرا اثر و رسوخ قائم کر لیا ہے۔

جدید افغان طالبان

آج طالبان پہلے ادوار کے طالبان سے قدرے مختلف طرز عمل کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ یہ طالبان دنیا کی مخالفت اور تنقید سے بے نیاز سخت گیری اپنانے والے ان ماضی کے طالبان سے مختلف فکر اور طرز عمل کے مالک ہیں۔ یہ عالمی پاورز کو خطے میں ان کی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنے والی ضدی حکمت عملیوں سے گریزاں ہیں۔ گذشتہ بیس سالوں کے دوران حالات کی بھٹی میں پکنے والے ان طالبان کا جدید ورژن قدرے سنجیدہ اور ڈپلومیٹک ہے۔ یہ ذہین سٹریٹجک پالیسی کے ساتھ عالمی برادری کے قریب ہونے کیلئے کوشاں ہیں۔ زمانہ ان میں میچورٹی ، صلح جوئی اور حقیقت پسندی کی مثبت تبدیلی دیکھ رہا ہے۔

آج طالبان نے دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی ترک کر کے مخالفین کیساتھ بھی مذاکرات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ آج وہ اپنے خارجی اور داخلی مفادات کیلئے، شعیہ ہزارہ قبائل جیسے ان ایرانی برانڈ عسکری گروپوں سے بھی مفاہمت کیلئے مذاکرات کر رہے ہیں جن کے ساتھ ماضی میں ان کے خونریز جنگی ٹکراؤ رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایران ، روس اور چین کے ساتھ متناسب روابط استوار کر لیے ہیں

آج طالبان کی تازہ پالیسیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب وہ بیرونی طاقتوں سے ٹکراؤ کی بجائے سفارت کاری کے ذریعے اپنا وجود تسلیم کروا کر امیج بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ آج ایران، روس اور چین ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہیں ۔ ان ممالک کو اس امر کا اندازہ ہے کہ طالبان ہی افغانستان کے مستقبل کے سیاسی ایوانوں کی اصل طاقت بننے والے ہیں۔

گو کہ آج افغان طالبان پاکستان اور قطر کے قریب تر ہیں۔ مگر ان کے بدلے ہوئے انداز سیاست بتاتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات اور نظریات کیخلاف کسی کی ڈکٹیشن بحرحال قبول نہیں کریں گے۔ یہ جدید طالبان بھی اسلامی اقدار کی پاسداری کی افغان روایات پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ حال ہی میں ایک کمسن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرم کو طالبان کی طرف سے دی گئی عبرت ناک سزا میں اس امر کا واضع اعلان ہے کہ طالبان کا اسلامی تشخص بحرحال قائم رہے گا۔

طالبان کے اسلامی نظام حکومت میں پاکستان کی طرح چوہدری سرور جیسا کوئی ایسا شخص کبھی گورنر نہیں بنے گا جو برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں ووٹ دیکر پاکستان کی سیاست میں داخل ہُوا ہو۔ طالبان حکومت میں پرویز رشید ، فواد چوہدری یا شیری رحمان جیسے انٹی مذہب وزیر اور ماوری سرمد برانڈ عورت مارچ نہیں ہوں گے۔

 کچھ مبصرین کے مطابق طالبان حکومت میں ٹی ٹی پی جیسی پاکستان مخالف قوتوں کو تقویت ملی تو وہ پاکستان کیلئے مسائل پیدا کریں گی۔ لیکن میرے مطابق افغان طالبان کی پیش قدمی کا طوفان بھارت اور اس کے انٹی پاکستان حلیفوں کو بہا لے جائے گا۔ بھارتی دہشت گردی کا نیٹ ورک کمزور ہونے کے بعد ٹی ٹی پی کی رسد اور کمر ٹوٹ جائے گی ۔ اگر ہم اپنے ریاستی مفادات اور افغان طالبان کے ساتھ مخلص رہیں گے تو فطری طور پر پاکستان کے احسان مند دوست طالبان کی موجودگی میں ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں بھی بے ضرر ہو جائیں گی۔

طالبان کی حالیہ پیش قدمی سے افغانستان میں جو سبز انقلاب آ رہا ہے، وہ بھارتی مفادات کیلئے سرخ آندھی اور پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک افلاکی مدد جیسا ہے۔ جلد ہی اس کے اثرات پورے خطے میں پھیلنے والے ہیں۔ ہاں کہ آج پاکستان کو افغان وار کے دور کی اس چالیس سال پرانی منصوبہ بندی کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے ضیاء الحق اور حمید گل جیسے ان ڈپلومیٹک اور زیرک الدماغ جرنیلوں کی ضرورت ہے، جنہوں نے انہی افغانوں کے ساتھ مل کر روس جیسی سپر پاور کو ٹکرے ٹکرے کر دیا تھا ۔ امید ہے کہ پاکستان اور طالبان کا سٹریٹجک اتحاد کشمیری مجاہدین کی تحریک میں جادوئی روح پھونک کر بھارت کے ٹکرے ہونے کے عمل کی شروعات کا باعث بنے گا ۔ ۔ ۔  

تحریر : فاروق درویش

 


پاکستانی ایٹمی پروگرام  کے بارے میرا یہ آرٹیکل بھی پڑھیں

بھارتی براس ٹیک سے ایٹمی میزائیل ، جے ایف 17 تھنڈر اور الخالد ٹینک تک

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button