حالات حاضرہریاست اور سیاستسیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

اک فتنہء وحشت تھی، نہیں رقص ِطوائف

 افسوس کہ فحش کلامی  اور غلاظت آلودہ القابات ہمارے روزمرہ سیاسی مباحثوں کا جزوء لازم بن چکے ہیں۔ یہ سوال ایک الگ موضوع ہے کہ یہود و ہنود کے پالے ” خاص لوگوں کیلئے” عوام الناس کی طرف سے نفرتوں کے ہار اور دشنام طرازی کے اسباب کیا ہیں۔ اور کچھ ” ان پڑھ اور جاہل لوگ ”  مغربی دھنوں پر رقص کرنے والے “عزت داروں” کو قابل اعتراض نام کیوں دیتے ہیں۔  

سوشل میڈیا اور فیس بک پر ایسے معرکے روزمرہ کا معمول ہیں۔ یقین نہ آئے تو آپ میاں صاحب کی طرف سے  آنجہانی عاصمہ جہانگیر جیسی کھلی گستاخ قرآن رسالت کی بطور نگران وزیراعظم نامزدگی کی تجویذ یا اہل قادیان کو بھائی قرار دیے جانے پر اعتراض کر کے دیکھیں، کئی نون لیگی مجاہدین جارحانہ دفاع  کیلئے صفیں باندھ لیں گے۔ آپ تحریک انصاف کی شیریں مزاری اور  فوزیہ قصوری کی ہم جنس پرستی   یا سنگر سلمان احمد کی گستاخیء اسلام و قرآن کا معاملہ چھیڑنے کی جسارت کر دیکھیں، خان صاحب کے انقلابی جنگجو تبروں کے تیر تلوار لیکر براہ راست حملہ آور ہوں گے۔

 یاد رہے کہ ہم سب پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں، سو ناموس رسالت مآب اور نظریہء پاکستان کے حوالے سے کسی کی طرف سے بھی کوئی گستاخانہ جرات اور دریدہ دہنی کسی بھی قیمت پر قطعی ناقابل برداشت ہے۔

پاکستان کا مطلب صرف لا الہ الاللہ اور عوام کی اکثریت کیلئے ” جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” اصول سیاست و ریاست کا پہلا اور آخری قاعدہ ہے۔ مجھے یا کسی کو بھی کسی شخص پر اس حوالے سے  کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ وہ میاں نواز شریف، عمران خان کا کسی اور کا پرستار کیوں ہے۔ لیکن میں یا کوئی بھی نواز شریف، عمران خان اور ان کے پرستاروں سے اس استفسار کا ضرور حق رکھتا ہے کہ آپ احباب کی صفوں میں فلاں دین دشمن یا گستاخ رسول کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے۔ یہ دہرخیالی کہ ہم اپنے دین اور نبی ء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا چھوڑ کر عالم دہر و سامراج کی غلامی و تقلید سے دنیاوی فلاح پا لیں گے آخری درجہ تک ناممکن ہے۔

گذشتہ برسوں آنجہانی  عاصمہ جہانگیر کی مذموم گستاخیء رسالت  کے بارے کالم شائع کیا تو اس حیا باختہ  خاتون کے بارے لوگوں کی  شدید نفرت اور انتہائی قابل اعتراض کومنٹس کا طوفان امڈ آیا۔ بیحد افسوس ہوا کہ میرے مضمون کے پوسٹ ہوتے ہی اس آنجہانی خاتون کیلئے نفرت آمیز اور فحش القابات کا نہ رکنے والا  ایسا سلسلہ شروع ہو ا کہ اللہ تیری  پناہ ۔  پوسٹ کی اشاعت کے اگلے ہی لمحے فیس بک کے چیمپئن کاکے تیلی کا یہ کومنٹ آیا کہ ” او بھائی اے عاصمہ جہانگیر بہت بڑی گشتی ہے” ۔۔۔۔۔ اف میرے خدیا ! کاش یہ کوتاہ علم اور جاہل لوگ ایسی گالیاں دینے سے پہلے ان کے معانی و مطالب ہی جان لیا کریں۔ لیکن اب یہ بات کاکے تیلی کو کون سمجھائے کہ بھائی صاحب ” گشتی ” کے معنی تو چلنے پھرنے اور گھومنے والی کے ہوتے ہیں جبکہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ تو ہر وقت ٹی وی چینل کی مہمانی کرسی، اقوام متحدہ کے عالی شان دفاتر یا پھر  جوگیا لباس پہنے آنجہانی بال ٹھاکرے کے  پر تعیش ڈرائینگ روم میں مخملی تکیہ لیے بیٹھی نظر آتی ہیں۔۔۔۔

اتنے میں ایک اور فیس بکی من چلے بھائی گامے میراثی نے فوراً کومنٹ دے مارا ” او نئی درویش صاحب یہ کاکا بھائی ٹھیک کہتا ہے، عاصمہ جہانگیر واقعی بہت بڑی کنجری عورت اے ” ۔۔۔ اور پھر ہم اس بھائی  گاماں جی کو یہ سمجھانے بیٹھ گئے کہ بھائی جان ” کنجری” طوائف کو کہتے ہیں اور طوائف وہ ہوتی ہے جو گھنگھرو باندھ کر ناچتی ہے۔  اور تماشبین  رقص سے خوش ہو کر جو نوٹ لٹاتے ہیں، ان سے اس بیچاری کا خرچہ پانی چلتا ہے۔۔۔

 باخدا ہم نے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو بھارتی ائرپورٹ پر ڈالی گئی لڈی کے علاوہ کبھی ناچتے نہیں دیکھا۔ اور  وہ رقص بھی کسی طوائف والا رقص نہیں بلکہ اپنے پیارے بال ٹھاکرے کے سوہنے مریدوں سے ملنے کی دلی خوشی میں کیا گیا والہانہ رقص تھا ۔ ویسے بھی خیال رہے کہ اب وہ خود نہیں ناچتیں بلکہ وزیروں  مشیروں اور حکمرانوں کو اپنے اشاروں پہ نچاتی ہے۔۔۔ اور بالآخر ہم نے اپنے فیس بکی قارئین  پر اپنی یہ بات ثابت کر ہی دی کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو گشتی یا کنجری جیسے فحش نام دینا انتہائی غلط بات ہے۔

 وہ امریکہ اور مغرب ہی نہیں ہمارے حکمرانوں اور میڈیا حضرات کی نظر میں بھی  نہات عزت دار خاتون تھیں۔ سو انہیں گشتی یا کنجری ایسا  کہنے والے غلط فہمی یا زبان و بیان کے علم سے لاعلمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اور جن حضرات کو ان کی عزت داری  اور معزز ہونے پر کوئی شک ہے، وہ  احمد آباد اور ممبئی کے  مندروں، اسلام دشمن طبقوں اور ناموس رسالت پر مبینہ حملے کرنے والے مغربی دانشوروں کی بیٹھکوں میں، یہود و ہنود کی طرف سے ان کی  خصوصی عزت افزائی ضرور مدنظر رکھیں۔

اتنے میں چاچا پھیکا بولا ۔۔۔ ” ہاں درویش جی تسی ٹھیک کہندے او ،  یہ گشتی یا کنجری کوئی گالی شالی نئی ، اے تے بس ساڈی اردو زبان دے عام جئے لفظ نیں “۔۔۔۔۔ اس پر ایک صاحبِ زبان و علم صاحب بھی چاچے پھیکے کی تائید کرتے ہوئے بولے ، ۔۔۔” جی ہاں چاچا پھیکا درست کہتا ہے،  پولیو کے ٹیکے لگانے والوں، عوام کی حفاظت کیلئے گھومنے والے پولیس اہلکاروں یا دینی تبلیغ کرنے  والے لوگوں کیلئے ” گشتی دستہ” کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، لہذا اسے کوئی گالی نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ ایسا سمجھنے والوں پر لازم ہے کہ وہ  اچھی سی اردو لغت خرید کر الفاظ و معانی سمجھیں ” ۔۔

اسی اثنا میں ایک اور پڑھے لکھے دوست اپنے تبصرے میں یوں مخاطب ہوئے کہ۔۔۔ ” ان لوگوں کی طرف سے یہ عریاں گالیاں بڑی چشم کشا ہیں ، دراصل یہ گالیاں اس حقیقیت کی طرف اشارہ ہے کہ اس عورت کی اسلام دشمنی اور کھلی توہین رسالت کے بارے اب صرف پڑھے لکھے اور صاحب فہم و فراست احباب ہی نہیں، قوم کے ان پڑھ اور جاہل مسلمان ماجے، گامے، جیدے اور کاکے منے بھی یہ بات چکے ہیں کہ عاصمہ ایک  دریدہ دہن اور گستاخ رسول خاتون تھی۔ لہذا غازی علم دین شہید جیسے ان ” جاہل اور ان پڑھ لوگوں ” کی طرف سے اس بدبخت کو  گالیاں نکالنا یا اہل علم و دانش  کی طرف سے مدلل و مہذب انداز میں تنقید کیے جانا، دراصل ان ہر دو طرح کے حضرات کے اندر سے اٹھنے والی شدید نفرت ہی کا عین مظہر ہے۔۔۔۔۔۔

مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ نواز شریف اور دوسرے سیاست دان اس خاتون کی اس قابلِ صد مذمت گستاخانہ ہسٹری سے کیونکر ناواقف  تھے۔ کیا یہ حکمران اس ملعون عورت کی طرف سے اپنے نبیء محترم کی توہین کو ایک معمولی بات سمجھتے تھے۔ یہ لوگ اس حقیقیت سے کیوں چشم پوشی کرتے رہے کہ یہ عورت بھی ملعون راج پال اور بدبخت سلمان رشدی جیسے گستاخینِ رسالت کی طرح انتہائی قابل نفرت اور آئین پاکستان کی دفعہ 295 – سی کے تحت سزائے موت کی عین حق دار تھی ۔ یہ کیوں اور کس کے اشارے پر اس بدبخت کو اپنے حلقہء مشاورت کا جزوء معتبر بنائے بیٹھے رہے۔ بلا شبہ یہ ایک قابل نفرت خاتون تھی لیکن ہاں پھر بھی، اس کیلئے بھی ایسی فحش گالیوں کا استعمال بالکل بھی اچھی بات نہیں ہے۔۔۔۔

اتنے میں فیس بک کا سب سے سیانا اورعقلمند بزرگ منا پہلوان بولا، ۔۔۔۔۔۔ ”  او یارو  رب دی قسمے اے بڑی ظالم عورت سی جے چپ کرجاؤ، اس کے جاسوس وسوس پھرتے رہتے ہیں۔ سنا ہے اس کے تعلقات ڈائریکٹ ہندوستانی ایجنسی را اور سی آئی اے کے دہشت گرد غنڈوں سے ہیں، یہ ظالم عورت اپنے خلاف بولنے والے لوگوں کو قتل کروا دیتی ہے” ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور صاحب نے ایک عیسائی پادری جوزف کے مقدمہء قتل کے حوالے سے اخبارات کی کچھ ” حقائق افروز” خبروں کے اقتسابات کی کاپی پیسٹ دے ماری ۔۔۔ ۔ ”بشپ جوزف کی موت میں این جی اوز ملوث ہو سکتی ہیں۔” (روزنامہ جنگ مورخہ 12 مئی 1998ء )۔

 ۔ 13 مئی ،1998 کے نوائے وقت میں چیف بشپ کیتھ لیزی کا یہ بیان شائع ہوا
۔”بشپ جوزف کے قتل کے پیچھے امریکی ڈالر اور عاصمہ جہانگیر کے چہرے ہیں”۔
بشپ جان جوزف کی آخری رسوم میں عیسائیوں سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے یہ اشتعال انگیز بیان داغا،
۔”۲۹۵۔ سی اور کتنی جانیں لے گا۔ اقلیتوں کے خلاف اس امتیازی قانون کو ختم کیا جائے۔” (روزنامہ دن: 9 مئی 1998۔ )۔

یہ اخباری خبریں دیکھ کر، منا پہلوان مذید جوش میں آ کر بولا۔۔۔ ” دیکھا جناب میں صحیح کہتا تھا ناں؟ او پا جی یہ  ظالم عورت  تو بندے کھا جاتی اے” ۔۔ اب اس بات پر سیدھا سادہ مگر انتہائی جذباتی جیدا لوہار کہاں چپ رہ سکتا تھا، لہذا  منے پہلوان کے اس کومنٹ پر اس نے بھی فوری  یہ کومنٹ دے مارا ۔۔۔ ” او نئی جناب بندے نئی جی،  قسمیں خدا دی اے تے ینگ منڈے کھا جاندی سی  ” ۔۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ کم از کم ہمیں اس بات کی قطعی کچھ بھی سمجھ نہیں آئی ، لہذا  ہم صرف خاموش رہنے کے سوا اور کیا کرتے؟ ۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ ایک چپ اور سو سکھ ۔۔۔ لہذا ہم نے چپکے سے قتیل شفائی صاحب کی یہ غزل چھیڑ کر اس گفتگو کا موضوع ہی بدل دیا ۔۔

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں :  ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں

( فاروق درویش-00923224061000) 

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button