بین الاقوامیدفاع پاکستان

جنگی ڈاکٹرائن، فوجی قیادت اور قوم کی ذمہ داریاں

فورتھ جنریشن وار ڈاکٹرائن کے تحت افواج پاکستان اور عوام میں فاصلے بڑھا کر عسکری اداروں کیلئے نفرت و بے یقینی کو فروغ دیا جاتا ہے

 شام  صدیوں سے مذاہب عالم کے ٹکراؤ  اور حق و باطل کے معرکوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں صحراؤں ساحلوں اور محلوں تک ہر قدم پرایک ہوش ربا تاریخ موجود ہے۔ ملکہ قلوپطرہ نے اپنے نابالغ خاوند شاہ بطلیموس کے ہاتھوں ملک بدر ہونے پر یہیں  سے مستقبل کی منصوبہ سازی کی اور جولیس سیزر کی مدد سے  مصر پر دوبارہ قابض ہوئی۔  یہیں سے اٹھنے والے لشکروں نے ہیکل سلیمانی اور یروشلم کو تیر و تاراج کیا۔ عیسائیت کی بنیاد اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ اسی شام میں امام  حسین رضی اللہ عنہ  کا سر مبارک  مسجد اموی میں  یزیدی دربار میں لایا گیا ۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی اسی شام  کے ساحلوں سے بیت المقدس کے در و دیوار تک  صلیبی لشکروں کیخلاف جس جوانمردی سے بیت المقدس کا دفاع کیا، تاریخ میں اس کی مثل و مثال  موجود نہیں ہے۔

ہسپانیہ اور ایشائے کوچک تک اسلام کا  پیغام بھی اسی شام ہی سے پہنچا اور احادیث  کے مطابق یہیں سے سیدنا امام مہدی اور دجال کے مابین حق و باطل کا وہ معرکہ  وقوع پذیر ہو گا جس کے دوران سیدنا عیسی  کا   امتیء محمدی کے طور پر نزول ثانی ہو گا۔ ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ  کے خاتمہ کیلئے صلیبی اتحادیوں کا مرکز بھی یہی خطہء شام تھا ۔ اور آج اتحاد ملت کی غدار قوتوں اور افغانستان سے پسپا ہونے والے سامراجی صلیبی اتحاد کی کاروائیوں سے عالم اسلام اور پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے اسی سرزمین شام و عراق کو مرکز بنانے کی مغربی منصوبہ سازی ہو رہی ہے

میرے مطابق شام اور اس کے گرد و نواح سے افریقی ممالک تک سامراجی اتحاد یا ان کے بغل بچوں کی سرگرمیوں کا مقصد عالم اسلام کے اس مرکز کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اصل حدف پاکستان کے وہ ایٹمی اثاثہ جات ہیں  جو یہود و نصاریٰ کیلئے سکون شکن فوبیے کا باعث ہیں۔ امریکہ بھی افواج پاکستان کی بے پناہ قربایوں کی بدولت پاکستان کی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر لمبی سرحد پر بھارت اور افغانستان میں موجود را اور موسادی ایجنٹوں کے بل بوتے عسکری مہم جوئیوں میں ناکام رہا ہے۔امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد  عالمی  لارڈز   پاکستان سے فوجی اڈے حاصل کرنے  کیلئے دباؤ بڑھائیں گے۔  یا  بصورت دیگر  خطہء شام و عراق اور ایران  کو اپنا کمانڈنگ زون بنائیں گے۔

  نائن الیون کے بعد ساٹھ ہزار فوجی جوانوں اور شہریوں کی قربانیاں دینے والا پاکستان ، آج بھی ہر طرف سے ان خوفناک جنگی ڈاکٹرائینز کی زد میں ہے جو گذشتہ برسوں سے عالمی دفاعی مبصرین کا ہنگامہ خیز موضوع رہے ہیں۔ اخباری کالموں   میں کچھ  خود ساختہ حقائق ایک ایٹمی طاقت کے عوام کو احساس کمتری اور خوف و ہراس میں مبتلا کرنے والے ہوتے ہیں۔  دفاعی مبصرین کے مطابق بھارت کا ” کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین ” فعال و تیار حالت میں ہے۔ اس کیلئے بھارت کی آدھی فوج سرحد  کے نزدیک موجود  رہتی ہے۔  نقل و حمل کیلئے سڑکوں ، پلوں اور ریلوے لائنوں کے ساتھ  اسلحہ ڈپو اور بنکرز بھی  مسلسل بنائے جا رہے ہیں۔ بھارت کا اصل حدف  سندھ کا وہ بارڈر ہے  جہاں ماضی میں پاکستان کو زبرست  نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا  بھارتی قیادت کو گمان ہے کہ سندھ کو بقیہ پاکستان سے کاٹتے ہوئے گوادر تک پہنچنے کیلئے  سندھ میں انہیں جسقم اور بلوچستان میں بی ایل اے جیسے بغل بچوں کی مدد حاصل ہوگی۔

لیکن میں بھارتی ” کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن” کے موثر ہونے کے امکانات مکمل طور پر رد کرتا ہوں۔ ماضی کی دو جنگوں میں  راجستھان  میں بھارتی فوج کی برتری کی وجہ پاکستان کے پاس صحرائی اور دلدلی علاقوں میں کارگر ٹینکوں کی کمی تھی۔ جبکہ آج پاکستان کے پاس چین اور یوکرائن کی مدد سے تیار ہونے والے الخالد اور الضرار  جیسے  جدید ترین ٹینک موجود ہیں جو ریتلے  اور دلدلی  علاقوں میں دفاع اور  اٹیک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دور مار رینج کے لیزرگائیڈڈ میزائل برق  ٹینکوں اور توپوں کو بھارتی علاقے ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جنگی صورت میں بری فوج کی مدد کیلئے  پاک فضائیہ  کے ایف 16 اور جے ایف 17 تھنڈر شور کوٹ اور جیکب آباد کے اٹیکنگ ائر بیس پر موجود ہوں گے ۔ افغانستان سے امریکی انخلا، سی آئی اے اور را  کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک مفلوج کرنے کے بعد افغان بارڈر پر مصروف فوج اب مشرقی سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھی دستیاب ہے۔ اور خدانخواستہ اگر پھر بھی بھارتی فوج پورا پاکستان عبور کر کے گوادر جا پہنچتی ہے تو  کیا ہم نے ایک سو بیس ایٹمی ہتھیارصرف شو کیسوں میں سجانے کیلئے رکھے ہیں؟

امریکی انتظامیہ کے دوسرے ڈاکٹرائن ” ایف پیک ڈاکٹرائن”  کے تحت دو دہائیوں تک پاکستانی فوج کو افغان جنگ میں ملوث کئے رکھا ہے۔ زبردستی مسلط کی جانے والی جنگ میں افواج پاکستان کو کمزور اور عوام کو دہشت زدہ کرنے کیلئے آرمی کے خلاف گوریلا وار اور مساجد سے بازاروں تک دہشت گردی ، اسی امریکی حکمت عملی کا حصہ رہی ، جسے اسرائیلی اور بھارتی تعاون حاصل رہا۔ لیکن ہاں تیسری جنگی حکمت عملی” فورتھ جنریشن وار”  سب سے خطرناک ہے۔ اس کے ذریعے امریکہ ، اس کے مغربی اتحادی اور ہندوتوا کے کٹھ پتلی این جی او اور میڈیا عناصر ہماری  ثقافت، افواج پاکستان اورآئی ایس آئی جیسے قومی اداروں کی ساکھ پر حملہ آور ہیں۔ اس کے تحت افواج اور عوام میں فاصلے بڑھا کر عسکری اداروں کیلئے نفرت و بے یقینی کو فروغ دیا جاتا ہے۔

 صوبائیت اور لسانی تفرقہ بازی کیلئے ننگِ وطن  سندھو دیش کے علمبردار اور جسقم جیسی بھارت نواز قوتیں ہیں۔  سندھی گوٹھوں میں ہندو وڈیروں اور ڈاکوؤں  کی  ڈور  را کے ہاتھوں میں ہے۔ اس خطرناک فورتھ جنریشن ڈاکٹرائن کے سب سے ہولناک  ہتھیار ہمارے میڈیا میں کثرت سے موجود ہیں۔ جن  کے ذریعے عوام میں ذہنی خلفشار ، انارکی اور بد دلی کی کیفیت اور فوجی اداروں کے بارے نفرت پیدا کی جاتی ہے ۔ پاکستان کیخلاف اس فورتھ جنریشن وار میں بھی امریکہ ، بھارت  اور اسرائیل کا اشتراک سرگرم ہے۔

لیکن اس میڈیا وار جیسی غیر فوجی جنگی حکمت عملی کا جواب دینا فوج  کی نہیں بلکہ ہم عوام کی اولین ذمہ داری ہے۔  جب تک ہمارے حکمران اور سیاست دان امریکی اور مغربی غلامی کا طعوق اتارکرقوم کے ساتھ امریکن فورتھ جنریشن وار کا جواب نہیں دیں گے، ہم کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ  فوج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہوتی ہے جبکہ نظریات اور قومی اداروں کے تشخص پر تنقیدی حملوں کا جواب  سیاست دانوں اور پریس اینڈ میڈیا کو دینا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا میڈیائی دانش ور امن کی آشا اور بھارتی خیرات کا بھکاری ہے۔ ہمارے باچا خانی سیاست دان  بھارتی فنڈز لیکر کالا باغ ڈیم کیخلاف مہم بازی میں پیش پیش ہیں۔ بلوچ باغی بھارتی کٹھ پتلیاں بن کر  دہشت گردی کا تندور جلا رہے ہیں ۔

 اب میں آپ کو شام کے اس دور میں واپس لئے جاتا ہوں جب وہاں بھی آج کے پاکستان جیسے حالات تھے۔  یہ وہ اہم وقت تھا جب عیسائی پھر سے زور پکڑ رہے تھے ۔ دمشق میں بھی کراچی جیسے جرائم اور قتل و غارت عام  تھی۔ اور نور الدین  زنگی نے نو عمر صلاح الدین ایوبی کو مکمل یقین کے ساتھ دمشق پولیس کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب تاریخ  ایک عظیم جرنیل کی تیاری کا ارتقا دیکھ رہی تھی۔ ایوبی کے آپریشن سے دمشق میں حالات بہتر ہوتے ہی، مصر سے فرقہ واریت اور عیسائیوں کی عسکری مہمات کی خبریں آنے لگیں۔  تو ایوبی  نے مصر کو بھی عیسائیوں کے دجالی چنگل سے آزاد کروا دیا۔ مصر فتح ہوا تو اکابرین ریاست نے انہیں صرف بتیس سال کی عمر میں مصر کا حاکم مقرر کیا ۔ ایوبی نے مسلکی منافرت پھیلانے والی مغرب نواز اسماعیلی خلافت کا خاتمہ کیا اور نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد  اقتدار سنبھال لیا۔

دیکھا جائے تو ہمارے جرنیلوں اور حکمرانوں کیلئے صلاح الدین ایوبی کی زندگی میں ایک مکمل راہنمائی اور سیاسی و عسکری حکمت عملیوں کے عملی اسباق موجود ہیں۔  وہ   دس سالہ طویل عرصہ  تک  اپنے اندرونی حالات اور ملکی نظم و نسق مظبوط تر کرنے کے ساتھ ساتھ  اندرون ملک بد دیانت ، غدارین امت اور حسن بن صباح کی باقیات جیسے فتنہ  عناصر کا خاطر خواہ بندوبست کرتا رہا۔  اور پھر اندرونی طور پر مستحکم ہو کر جب وہ حطین اور یروشلم کی جانب بڑھا تو قدرت نے بھی اس فتح بیت المقدس کا آفاقی تاج اس کے مبارک سر پر سجا دیا۔

موجودہ حالات میں  آج ہماری عسکری قیادت  کو بھی ایوبی دور کے مصر و شام جیسے ہی چیلنج درپیش ہیں۔ مغربی سرحدوں پر ہمسایہ ممالک ہمارے کیخلاف سازشوں اور باغیوں کی سرپرستی میں سرگرم ہیں۔ راحیل شریف نے پاکستان کی سلامتی کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو نکیل ڈالے رکھی۔ لیکن کیا آج کی عسکری قیادت بھی  قوم کو بحرانوں سے نکالنے کی اہل ہے؟ اس کیلئے عسکری قیادت کو یہ کردار مارشل لا ئی ڈکٹیٹربن کر نہیں، غیرجانبدار مخلصِ قوم  جرنیلی اور” سب کا احتساب ” سے  ادا کرنا ہو گا۔   سیاست    دانوں کے وعدوں  کے فریب    در فریب  کھانے والی   قوم    موجودہ جمہوری حکومت  سے  کلی مایوس اور  بد دل  ہے ۔    ملکی سلامتی کی شرط اول  عوام  اور  فوجی قیادت میں  مکمل ہم آہنگی کے ساتھ  دشمنانِ پاکستان کی ہر   مہم جوئی  کا مونہ توڑ جواب ہے ۔

آخر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف سے دو غدارین ، اپنے چچا زاد کے ساتھ بھائی خلیفہ الصالح اور امیر سیف الدین کے نام خط میں لکھے گئے چند الفاظ ، احباب یاد رہے  کہ ان دونوں نے صلیبی طاقتوں  کی  خفیہ مدد کر کے ایوبی سلطان کو شکست دینے کی سازش کی تھی ۔ 

تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کیلئے ایک خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلداہ ہو

جبکہ حسن کی دیسی اور ولائتی تتلیوں کو پارلیمنٹ ہاؤس سے حکومتی اور وزارتی  دفاتر تک آزادانہ رسائی حاصل  تھی اور رہے گی۔

( فاروق درویش – واٹس ایپ کنٹیکٹ – 00923224061000 )


پاکستان کے جے ایف 17 تھنڈر کے بارے میرا یہ مضمون بھی پڑھیں

ایٹمی میزائلوں سے لیس جے ایف 17 تھنڈر فائٹر کے جدید ورژن بلاک 3 کی فضائی برتری

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button