سیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

دیسی لبرلز اور بدیسی سیکولرز کا گورکھ دھندا

یہ روشن خیال لوگ کسی مغربی یا ہندو سکھ عیسائی شخصیت کے مرنے پر اسے جنت میں پہنچانے کیلئے دعائے مغفرت پر تو ضد کرتے ہیں لیکن خود اپنی جنت دوزخ پر یقین نہیں رکھتے

مذہب سے بیر رکھنے والے دیسی لبرل صاحبان بھی عجب چوں چوں کا مربہ ہوتے ہیں  کہ ان کے سو رنگ اور ہزار بدرنگ ہیں۔  عورت مارچ  میں  خواتین ک آزاد انہ  رقص  پر تالیاں بجانے والے   یہ لوگ بڑے فخر سے خود کو سیکولر یعنی  دین سے دور کہتے ہیں ۔  لیکن کرسمس کے موقع پر گلے میں صلیب ڈالے گرجا اور دیوالی پر رام  کا لاکٹ پہنے مندر یاترا بھی کرتے ہیں۔  انہیں سکھوں کے گوردوارے میں ماتھا ٹیکنے سے دلی سکون اور مہاتما بدھ کی مورتی کی قدم بوسی سے راحت ملتی ہے۔ لیکن مسجد سے ان کا رشتہ بس شاہی مسجد سے صرف ایک فرلانگ دور شاہی محلے کے بازار حسن تک ہی ہے۔

کتابوں میں  سیکولرازم تمام مذاہب سے لاتعلقی اور غیر جانبدار کا نام ہے لیکن یہ اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کے مذہبی پیشواؤں اور عقیدوں کا بیحد احترام مگر صرف اسلام کے بارے ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔  سو انہیں  بابری مسجد شہید اور بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے ہندو امن گرد اور لیکن ان  کیخلاف احتجاج کرنے والے مسلمان دہشت گرد لگتے ہیں۔

یہ مغربی یا  بھارتی ہندو سکھ عیسائی  ہیرو ہیروئین کو جنت میں پہنچانے کیلئے تو دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔  لیکن خود  اپنی جنت دوزخ پر یقین نہیں رکھتے ۔ انڈین  فلموں  میں بتوں کی پوجا پاٹ پر  با ادب  رہتے ہیں ۔لیکن کسی پاکستانی ڈرامے میں اذان کی آواز سے انہیں  کانوں میں جان لیوا کت کتاریاں ہوتی ہیں۔ یہ گستاخ قرآن و رسالت  آنجہانی عاصمہ جہانگیر کی طرح ماتھے پر تلک لگائے، رامائن تھامے مندر میں ہری اوم کا ورد کریں  تو وہ بین المذاہب اخوت کا مظہر ہے۔ لیکن جب کوئی مسلمان مساجد میں ہونے والے مظالم  کی بات کرے تو یہ اسے امن کا دشمن قرار دیتے ہیں۔  ان  کے مطابق نصاب میں صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان جیسے مجاہدین ملت پر مضامین دہشت گردی کا فروغ اور انگریز بادشاہ  رچرڈ شیر دل کی تعریف اعلی ظرفی ہے۔

یہ عیسائی، یہودی اور بدھ پیروکاروں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام پر ان کے مذہب  اور  دہشت گردی پر خاموش  رہتے ہیں ۔ لیکن اگرمسلمان کے ہاتھوں کوئی گستاخ قرآن و رسالت قتل ہو جائے  تو یہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو شدت پسند قرار دینا فرض سمجھتے ہیں ۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہم جنس پرستی، عریانیت اور قوم لوط  پر عذاب کے بارے  قرآنی حوالوں کے جواب میں امریکی معاشرے کی تقلید میں دوسرے کیلئے زندہ رہنے اور انساینت کے نام پر ملنساری کی مغربی  دلیل پیش کرتے ہیں ۔  ان  کیلئے قرآنی احکامات کی نسبت یہ دلیل اہم ہے کہ  ترقی یافتہ  امریکی ریاستوں اور آدھے مغرب میں ہم جنس پرست شادیاں قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان  سیکولر شدت پسندوں  کے مطابق امریکی اور نیٹو  فوج کے ہاتھوں مرنے یا بنگلہ دیش میں پھانسیوں پرلٹکائے جانے والے پاکستانی محب الوطن شہید نہیں  ہیں ۔ ہاں لیکن پاکستانی جیل میں قتل ہونے والا بھارتی دہشت گرد سربھجیت سنگھ اصلی شہید ہے۔  ان  سے شریعت کی بات کریں تو یہ فوراً “کون سے فرقے اور مسلک کی شریعت ” کا سوال کرتے  ہیں ۔ آپ  اسلامی قوانین کے مطابق چور کے ہاتھ کاٹنے کا ذکر کریں،  یہ بھوک افلاس اور قحط سالی کی مثالیں دیں گے۔ اور اگرآپ ملک و قوم کا سرمایہ لوٹنے والے ارب پتی چوروں کا احوال بیان کریں تو یہ ان کے ” قومی و ملی کارنامے” گنوانے لگتے  ہیں۔

آپ  قرآن و حدیث کے حوالوں  سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کیخلاف جہاد کو حق کہیں ، وہ امریکی میڈیائی مسخروں کے اقوال زریں سے جہاد کو مرزا قادیانی کی طرح  دہشت گردی ثابت کرتے ہیں ۔ آپ قرآن و حدیث سے اسلام دشمن ممالک سے جہاد و قتال کی بات کرتے ہو، ان کو صرف صلح حدیبیہ  ہی نظر آتی ہے۔  آپ جنگ بدر و خیبر کا حوالہ دیں یہ جنگ جمل کی طرف لے جائیں گے۔ آپ اسلامی اقدار کے کیخلاف ہرزا سرائی کرنے والے  سیکولر طبقے کے بارے علمی و عقلی دلائل دیں۔  تو یہ سب کو ان کے حال پر چھوڑ دینے کی صلاح دینے لگتے  ہیں ۔  مگر مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر ان کے حال پر چھوڑنے کیلئے کبھی رضامند نہیں ہوتے۔

تعلیمی نصاب میں قرآن حکیم کے با ترجمہ شامل ہونے پر ان کو  ڈھاکہ کی تیز مرچوں والی اوئی اوئی ہوتی ہے لیکن دوسروں سے تکرار میں  خود سرخ ولائتی رائٹرز کی کتابوں کے اردو ترجموں اور ہندو گرنتھوں کے حوالے دیتے ہیں۔  کوئی مسلمان امام ابن تیمیہ ، اشرف علی تھانوی، سید مودودی یا احمد رضا خان کی تفسیر بیان کرے ، یہ فوری  اسے غامدی کے بیان سے جھٹلاتے ہیں ۔  آپ ملت اسلامیہ کے دانشوروں  کی بات کر کے دیکھیں ، یہ مغربی اور لادین مفکرین کو مقابلے پہ لے آتے ہیں ۔  آپ اسلام  کی عظمت رفتہ کی بات کرو، یہ  رومن ایمپائرز  اور دورعیسائیت کی مثالیں دینے لگتے ہیں ۔

آپ کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو یا تو  یہ اس کا مفہوم ہی بدل دیتے ہیں  یا پھر اسے ضعیف قرار دیکر جھٹلا دیتے ہیں۔ مسلمان کیلئے امت کا تصور ایک جسم واحد کی طرح ہے۔ سو مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب کے مسلم برادرز کیلئے پوری امت کے افراد کے دل میں درد ملی سرمایہ ہے۔ آپ عراق و شام کی خونریزی کی بات کرو،  یہ ” دوسروں کا ماما ” بننے کی بجائے  پہلے اپنے پاکستان  کی بدحالی پر توجہ دینے کی تلقین شروع کر دیتے ہیں ۔

آپ پاکستان کے حالات و واقعات کی بات کرتے ہیں تو یہ گھوم پھر کر پھر افغانستان کی طالبانیت پر چلا جاتے ہیں ۔ امت کو  مضبوط بنانے کی بات چھیڑی جائے، تو ان  کو خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ طاقت ور ہو کر  شدت پسندوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو جائے گی ۔ آپ پاکستان کے ایک  ایٹمی قوت ہونے پر فخر کا اظہار کریں تو ان کو پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے طالبان کے ہاتھوں لگ جانے کی فکر ستانے لگتی ہے۔

آپ فلسطین، کشمیر، برما، شام ، عراق ، لیبیا اور افغانستان میں مسلمانوں  کے قتل عام کا ذکر کر کے دیکھیں، یہ پٹرول اور اشیائے خورد کی قیمتوں کے ہاتھوں مرنے والے مفلسوں کا دردناک قصہ چھیڑ دیں گے۔ آپ ملت اسلامیہ کے اتحاد کی بات کرتے ہو یہ صوم و صلواۃ کا اختلاف بیان کرنے لگ جاتے ہیں ۔ آپ اپنے کلمہ گو اور مسلمان ہونے پر فخر کی بات کرتے ہو، یہ حنفی، حنبلی، شافعی ، مالکی، دیوبندی و اہل حدیث اور شعیہ سنی کا فرق نکال لاتے ہیں ۔

آپ  گستاخین اہل بیت ، شاتمین صحابہ و امہات المومنین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، تو یہ مسلک بھول کر  صرف  امت کے اتحاد کے والہانہ  ترانے پڑھنے لگتے ہیں ۔ آپ گستاخین قران و رسالت کا انجام غازی علم دین شہید کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہندو شاتم رسول راج پال جیسا چاہتے ہو، لیکن یہ کفار کیلئے فتح مکہ کے موقع  پر دی گئی عام عافی کا حوالہ  دیتے ہیں ۔  ان کو فتح مکہ  پر کفار کیلئے عام معافی تو یاد ہے لیکن لیکن اس موقع پر کعب بن اشرف جیسے ان  بارہ گستاخین قرآن و رسالت کے بارے نبیء آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم یاد نہیں کہ ” یہ گستاخین غلافِ کعبہ میں بھی چھپے ہوں تو انہیں قتل کر دیا جائے”۔

آپ  شریعت  کے نفاذ کو ملک و قوم کی بہتری کا حل تجویذ کرتے ہو، یہ فوراً  جمہوریت کے قصیدے پڑھنے لگتے ہیں ۔ آپ خلافت اسلامیہ کی عظمت کی بات کرتے ہو، یہ  اسے ظالمانہ بادشاہت ثابت کرنے پر  تلے ہوتے ہیں ۔ آپ مسلمانوں کے قاتل صلیبی   ٹولے کو کسی برے لقب سے پکارتے ہو، یہ قرآن حکیم کی یہ آیت نکال لاتے ہیں  کہ ان کے خداؤں کو برا نہ کہو۔ آپ مشرکین و فتنہء قادیانیت سے علمی ابطال کی بات کریں  یہ لکم دین کم ولی دین کا مشورہ دیتے  ہیں ۔

زمانہ غدارین ملک و ملت کو ننگ دین ، ننگ آدم، ننگ وطن کہتا رہے، یہ میر جعفر اور میر صادق کو بھی مسلم حکمرانوں کے ظلم کا شکار ہو کر بغاوت پر مجبورمظلومین ثابت کرکے دکھائیں گے ۔ کیونکہ یہ خود مولوی کو فسادی قرار دیتے ہیں ، لہذا  انہیں  حضرت اقبال کا صرف ایک ہی شعر” دین ملا فی سبیل اللہ فساد ” ہی یاد ہے۔ آپ عریاں عورت مارچ  والی  گستاخ رسول  دہریہ این جی او شہزادیوں کی اسلام دشمنی اور گستاخانہ اقوال کی بات کریں یہ انہیں امن دوست دانش ور ہستیاں اور انسانیت کی مسیحائیں ثابت کر دیتے ہیں ۔

احباب مزے کی بات یہ ہے کہ خود کے سیکولر اور دہریہ ہونے پر فخر کرنے والے  یہ  عقلمند صاحبان اللہ کے وجود  کے کھلے  منکر  ہیں۔  لیکن اپنے دوستوں کی پوسٹوں پر” واہ واہ ماشاللہ ” اور ” کیا کہنے سبحان اللہ” کے کومنٹ بھی دیتے ہیں۔  یہ خدائے مقتدر اعلی کو محض ایک “ان دیکھا خیالی تصور” قرار دیتے ہیں۔   مگر جوابی دلائل سے شکست سامنے دیکھ کر ” انشاللہ پھر بات ہو گی” کہہ کر اسی اللہ کا نام لیکر  جان چھڑواتے  ہیں ۔

ان کے سیکولر عقیدے کے مطابق اللہ سبحان تعالیٰ کی ” تصوراتی ذات” کا کسی قوم یا فرد کی زندگی پر اثر انداز ہونا جہالت، دقیانوسی خیال اور احمقانہ بات ہے۔ لیکن کسی دوست کی بیماری کی خبر پر” اللہ آپ کو صحت کاملہ  آجلہ سے نوازے ” کا دعائیہ پیغام بھی لکھتے ہیں  ۔

احباب یہی امر بدترین منافقت    کا مظہر ہے  کہ ایک طرف یہ  سیکولر حضرات اللہ کے وجود کے اعلانیہ منکر ہیں  اور دوسری طرف ان کی تحریر و تقریر میں ” اللہ ” ہی” اللہ” ہر جاہ موجود رہتا ہے۔ یہ قرآن و حدیث کے کھلے  منکر  بھی ہیں  مگر اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے اسی قرآن و حدیث کے وجود و حقیقت کو تسلیم کر کے اس کے خود گھڑت مطالب و تفسیر بھی استعمال کرتے ہیں ۔ اور جب ان  کو  جھوٹا اور کاذب ثابت کیا جائے تو  یہ  ” لعنت اللہ علی الکاذبین” لکھ کر، نہ چاہتے ہوئے بھی اللہ کا وجود اور اقتدار اعلی ثابت کر تے ہیں ۔

بھلا بوجھیں کہ  ایسے ایکس وائی زیڈ کون  ہیں ؟ جی ہاں یہ  لوگ دراصل  سیکولر نہیں ، ہندو سکھ عیسائی یا قادیانی غیر مسلم بھی نہیں بلکہ وہ  حواس باختہ فتنہ پرور   فرزندانِ  جہالت ہیں جنہیں   ہم سب ” دیسی لبرالٹرز ” اور معصوم بچے لوگ ” مسخرے ” کہتے ہیں۔

  نورنگیء دوراں ہے نیرنگِ زمانہ ۔۔  ہر چہرہ ہے صد چہرہ مگر عکس ندیدہ

( فاروق درویش ۔۔ واٹس ایپ ۔۔ 0923324061000)


سیکولرز کے کافرانہ عقائد کے بارے یہ کالم بھی پڑھیں

احمد فراز اور دیسی لبرلز مسلمانوں کی ایرانی محبوبہ

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button