رموز شاعریکلاسیکل شاعری

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے ۔ کلام غالب، بحر و اوزان اور اصولِ تقطیع ۔ فاروق درویش

بحر : بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع اراکین بحر ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فعلُن

حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

بوسہ دیتے نہیں، اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

اور بازار سے لے آئے ،اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے ،مرا جامِ سفال، اچّھا ہے

بے طلب دیں، تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا ،جس کو نہ ہو خوئےسوال، اچّھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے

دیکھیے ،پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے، کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو، کمال اچّھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے، خالقِ اکبر، سر سبز
شاہ کے باغ میں، یہ تازہ نہال اچّھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت، لیکن
دل کے خوش رکھنے کو ،غالب ،یہ خیال اچّھا ہے

(مرزا اسد اللہ خان غالب)

۔

قافیہ :- کمال، جمال، خیال ۔ ۔ ۔
ردیف : اچھا ہے

بحر : بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

اراکین بحر : ۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فعلُن
ہندسی اوزان : ۔۔۔۔ 2212 ۔۔۔۔2211 ۔۔۔۔ 2211 ۔۔۔۔22 ۔۔

اس بحر میں پہلے رکن یعنی فاعلاتن ( 2212 ) کی جگہ فعلاتن ( 2211 ) اور آخری رکن فعلن (22) کی جگہ , فعلان ( 122)، فَعِلن (211 ) اور فَعِلان (1211) بھی آ سکتا ہے۔ یوں اس بحر کی ایک ہی غزل یا نظم میں درج ذیل آٹھ اوزان ایک ساتھ استعمال کرنے کی عروضی گنجائش موجود ہے ۔

۔1 ۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔ فعلُن ۔۔۔ 2212 …2211 ..2211 … 22 ۔
۔2 ۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔ فَعِلُن ۔۔2212 …2211 ….2211 …211 ۔
۔3 ۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔ فعلاتُن ۔۔۔۔ فَعلان۔۔2212 …2211 …2211 …122 ۔
۔4 ۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلان 2212 …2211…2211…1211۔
۔5 ۔۔۔ فعلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فعلُن ۔۔2211 …2211 ….2211 …22 ۔
۔6 ۔۔۔ فعلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔۔ فعلان۔۔2211…2211..2211…. 122 ۔
۔7 ۔۔۔ فعلاتُن ۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔ فَعِلُن۔۔2211 ..2211 …. 2211 … 211
۔8 ۔۔۔ فعلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔۔ فَعِلان۔۔2211…2211….2211…1211۔

اشارات تقطیع

حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے

حس ۔۔۔۔نے ۔۔۔۔ مہ ۔۔۔۔ گر ۔۔۔ فاعلاتن – 2212

چہ ۔۔۔۔ ب ۔۔۔۔ ہن ۔۔۔۔ گا ۔۔۔ فعلاتن – 2211

مے ۔۔۔۔ ک ۔۔۔۔ ما ۔۔۔۔ اچھ ۔۔۔۔ فعلاتن – 2211 ( یہاں کمال کے “ل” اور “چھا” کے درمیانی الف وصل کو گرا کر اسے ” ک- ما – لچھ – چھا – ہے” باندھا گیا گیا۔ اور الف گرانے کا یہ عمل غزل کے ہر شعر کے مصرع ثانی میں ہے۔

چھا ۔۔۔۔ ہے ۔۔۔ فعلن ۔۔۔ 22 ۔

اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

اس ۔۔ سے ۔۔۔ می ۔۔۔ را ۔۔۔۔ فاعلاتن – 2212

م ۔۔۔ ہے۔۔۔ خر ۔۔۔۔ شی ۔۔۔ فعلاتن – 2211

د ۔۔۔ ج۔۔۔ ما ۔۔۔ اچھ ۔۔۔ فعلاتن – 2211 (یہاں جمال کے “ل” اور “چھا” کے درمیانی الف وصل کو گرا کر اسے ” ج- ما – لچھ – چھا – ہے” باندھا گیا گیا۔ اور الف گرانے کا یہ عمل غزل کے ہر شعر کے مصرع ثانی میں ہے۔

چھا ۔۔۔ ہے ۔۔ فعلن ۔۔۔ 22

” بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ “

(  ۔ ( اس مصرع میں آخری فعلن ( 22) کی جگہ فَعِلان ( 1211) باندھا گیا ہے

“اور بازار سے لے آئے ،اگر ٹوٹ گیا”

۔ (اس مصرع میں فعلن ( 22) کی جگہ فَعِلن ( 211) باندھا گیا ہے۔۔

“دیکھیے ،پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض “

“قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے “

“خضر سلطاں کو رکھے، خالقِ اکبر، سر سبز “

( ۔( ان مصرعوں میں فعلن (22) کی جگہ فعلان (122) باندھا گیا ہے

اصولِ تقطیع

تقطیع کرتے ہوئے یاد رکھیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ” میرے” یا “تیرے” کے “میم” یا “ت” کیلئے دو حرفی وزن دستیاب نہ ہو تو انہیں یک حرفی میں باندھ کر مِ یا تِ ( زیر کے ساتھ) “مِرے” اور “تِرے” پڑھا جاتا ہے۔ یعنی 2+2 یا 2+1 کا وزن دستیاب ہو تو پورا میرے اور تیرے پڑھا جائے گا اور اگر 1+2 یا 1+1 کا وزن دستیاب ہو تو میم اور ت کو زیر کی آواز کے ساتھ مِرے اور تِرے پڑھا جائے گا ۔ “کیا” اور “کیوں” کو دو حرفی یعنی “کا” اور “کوں ” کے وزن پر باندھا جائے گا ۔ کہ، ہے، ہیں، میں، وہ، جو، تھا، تھے، کو، کے ، تے ، رے اور ء جیسے الفاظ دو حرفی وزن پر بھی درست ہیں اور انہیں ایک حرفی وزن میں باندھنا بھی درست ہیں ۔ لہذا ان جیسے الفاظ کیلئے مصرع میں ان کے مقام پر بحر میں جس وزن کی سہولت دستیاب ہو وہ درست ہو گا ۔

ایسے ہی “ے” یا “ی” یا “ہ” پر ختم ہونے والے الفاظ کے ان اختتامی حروف کو گرایا جا سکتا ہے ۔ یعنی جن الفاظ کے آخر میں جے ، گے، سے، کھے، دے، کھی، نی، تی، جہ، طہ، رہ وغیرہ ہو ان میں ے، ی یا ہ کو گرا کر انہیں یک حرفی وزن پر باندھنا بھی درست ہو گا اور اگر دوحرفی وزن دستیاب ہو تو دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی لفظ کے اختتامی حرف کے نیچے زیر ہو اسے دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے اور یک حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ( مثال : دشت یا وصال کے ت یا لام کے نیچے زیر کی صورت میں انہیں دشتے اور وصالے پڑھا جائے گا ۔ ایسے الفاظ کی اختتامی ت یا لام کو بحر میں دستیاب وزن کے مطابق یک حرفی یا دو حرفی باندھنے کی دونوں صورتیں درست ہوں گی ) ۔

تقطیع کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ نون غنہ اور ھ تقطیع میں شمار نہیں کئے جائیں گے یعنی تقطیع کرتے ہوئے ، صحراؤں کو صحراؤ ، میاں کو میا، خوں کو خو، کہیں کو کہی ۔ پتھر کو پتر اور چھیڑے کو چیڑے پڑھا جائے گا

۔( تحریر : فاروق درویش )۔


اسی بحر میں میری یہ غزل اور  اصول تقطیع بھی یہ مضمون بھی پڑھیں

گفتگو درد کی عالم کی زباں ٹھہرے گی ۔ غزل فاروق درویش، بحر و اوزان اور اصول تقطیع

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button